Performing Salah behind Barelwi Imam

Performing Salah behind Barelwi Imam

Performing Ṣalāh behind Barelwī Imam

Question

Is Ṣalāh performed behind a Barelwī Imam valid?

بسم الله الرحمن الرحیم

Answer

The Ṣalāh performed behind any Muslim is valid, although one must endeavour to perform Ṣalāh behind an Imam who is pious and learned with correct beliefs. If performing Ṣalāh behind such an Imam is not possible, one should not forsake congregational Ṣalāh.

عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: الصلاة المكتوبة واجبة خلف كل مسلم برا كان أو فاجرا وإن عمل الكبائر، رواه أبو داود (٥٩٤)، وهو أصح ما ورد في الباب كما صرح به البيهقي (٦٨٣٢) لكن مكحولا لم يسمع من أبي هريرة كما صرح الدارقطني (١٧٦٨)، وراجع تخريج أحاديث الهداية (٢/٢٦) للزيلعي المعروف بنصب الراية، والتلخيص الحبير (٢/٧٥)۔

وقال محمد في الأصل (١/١٨): قلت: أرأيت إن أمهم فاسق؟ قال: صلاتهم تامة. قلت: أي القوم أحب إليك أن يؤمهم؟ قال: أقرؤهم لكتاب الله وأعلمهم بالسنة، انتهى. وذكر السرخسي في المبسوط (١/٤٠) حديث مكحول، ثم قال: ولأن الصحابة والتابعين كانوا لا يمنعون من الاقتداء بالحجاج في صلاة الجمعة وغيرها مع أنه كان أفسق أهل زمانه، انتهى. وقال السمرقندي في التحفة (١/٢٢٩): الصالح للإمامة هو الرجل الذي من أهل الصلاة المفروضة، سواء كان حرا أو عبدا بصيرا كان أو أعمى تقيا كان أو فاجرا، وعلى ما روي عن النبي عليه السلام أنه قال: صلوا خلف كل بر وفاجر، انتهى۔

وقال الكاساني في البدائع (١/١٥٧): قال بعض مشايخنا: إن الصلاة خلف المبتدع لا تجوز، وذكر في المنتقى رواية عن أبي حنيفة أنه كان لا يرى الصلاة خلف المبتدع، والصحيح أنه إن كان هوى يكفره لا تجوز، وإن كان لا يكفره تجوز مع الكراهة، انتهى. وقال الفخر الزيلعي في تبيين الحقائق (١/١٣٤): (والمبتدع) أي صاحب الهوى، قال المرغيناني: تجوز الصلاة خلف صاحب هوى وبدعة ولا تجوز خلف الرافضي والجهمي والقدري والمشبه ومن يقول بخلق القرآن، حاصله إن كان هوى لا يكفر به صاحبه يجوز مع الكراهة، وإلا فلا، انتهى. وراجع فتح القدير (١/٣٥٠) والبحر الرائق (١/٣٧٠) والمراقي (ص ٣٠٣) ورد المحتار (١/٥٦٠)۔

وقال ابن مازة في المحيط البرهاني (١/٤٠٧): ومن صلى خلف فاسق أو مبتدع يكون محرزا ثواب الجماعة، قال عليه السلام: صلوا خلف كل بر وفاجر، انتهى. قال ابن عابدين في رد المحتار (١/٥٦٢): قوله (نال فضل الجماعة) أفاد أن الصلاة خلفهما أولى من الانفراد، لكن لا ينال كما ينال خلف تقي ورع، انتهى۔

وجاء في إمداد الفتاوى للشيخ أشرف علي التهانوي (١/٣٠٤):  سوال:   بعض موحدمومن نیت پیچھے بدعتی کے نہیں کرتے یہ کیسا ہے؟ اور بعض کا قول ہے کہ پڑھ لیوے، مگردوبارہ نماز اپنی اعادہ کرلیوے؟الجواب : ہرچند کہ مبتدع کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ ہے۔كما في الدر المختار: ومبتدع. مگرتنہا  نمازپڑھنے سے جماعت کے ساتھ پڑھنا افضل ہے ۔وفي النهر: صلى خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعة، در مختار، وفي رد المحتار: أفاد أن الصلاة خلفهما أولى من الانفراد، انتهى۔اور اعادہ ہرچند کہ وقت ترک سنت کے مستحب ہے لیکن بشرطیکہ اعادہ  میں ترک سنت لازم نہ آوے اور یہاں اعادہ میں ترک جماعت کہ سنت ہے لازم آتا ہے، پس اعادہ کچھ ضرورنہیں ۔

وجاء في فتاوى دار العلوم ديوبند (٣/١٦٧) للمفتي عزيز الرحمن العثماني:  (سوال ۹۷۸) حضرت اقدس مولانا اشرف علی صاحب نے لکھا ہے کہ بدعتی کے پیچھے نماز ہوجاتی ہے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے۔ مگر حضرت مولانا رشید احمد صاحب نور اﷲ مرقدئہ نے مکروہ تحریمی واجب الاعادہ تحریر فرمایا ہے ۔ لہذا اختلاف ہونے کی صورت میں کیا طرز عمل اختیار کیا جائے ۔الجواب :  درمختار میں ہے   وفي النهر عن المحيط: صلى خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعة، الخ. او ر شامی میں ہے   قوله (نال فضل الجماعة) أفاد أن الصلاة خلفهما أولى من الانفراد، لكن لا ينال كما ينال خلف تقي ورع، الخ. ۔ اس عبارت سے  واضح ہوتا ہے کہ بدعتی کے پیچھے نماز ہوجاتی ہے بلکہ تنہا نماز پڑھنے سے اولیٰ ہے ۔ باقی چونکہ بدعتی بدعتی میں فرق  ہوتا ہے ۔ بعض بدعات حدکفر و شرک تک پہنچی ہوئی ہوتی ہیں ۔اگر ایسے بدعتی کے پیچھے نماز پڑھے تو اس کو اعادہ کرنا ضروری ہے، یہی صورت تطبیق کی ہوسکتی ہے یا جس نے اعادہ کا حکم دیا احتیاط ہو یا اختلاف روایات اور بد عت فی العقیدہ میں بھی  تفاوت درجات ہے ۔ جب تک یہ معلوم نہ ہو کہ عقیدہ اس کا حد کفر کو پہنچا ہوا ہے اس وقت تک اس کے پیچھے فساد نماز کا حکم نہ کیا جاوے گا ۔ کذا فی الدر المختار ۔فقط۔

وجاء في فتاوى دار العلوم ديوبند (٣/١٤٨): (سوال ۹۰۴) جو شخص مولود مروجہ کرتا ہو اور ا س میں گانا بجانا ہوتا ہو اور عرس وغیرہ میں بھی شریک ہوتا ہو اور قوالی سنتا ہو اس کے پیچھے نماز ہوجاتی ہے یا نہیں اگر  نہیں ہوتی اور اس کو علیٰحدہ کرنے میں فتنہ ہوتا ہے تو اس صورت میں کیا حکم ہے ؟ الجواب :  نماز ہوجاتی ہے لیکن اگر اس کے علیٰحدہ کرنے میں فتنہ نہ ہو تو ا س کو امامت سے علیٰحدہ کر دیا جائے اور اگر فتنہ  ہو تو اسی کے پیچھے نماز پڑھے کہ تنہا نماز پڑھنے سے اس کے پیچھے نماز پڑھنا جماعت کے ساتھ  بہتر ہے ۔ کذا فی الشامی وغیرہا۔فقط۔

وجاء في إمداد الأحكام (١/٥٣٦) لمولانا ظفر أحمد العثماني:  دوسری جماعت جو اپنے کو حنفی اور مقلد امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ بھی کہتے ہیں تقلید کو ضروری سمجھتے ہیں ، مگربہت کام جس کا امام صاحب سے ثبوت نہیں ، کرتے ہیں، مثلاً مولود، وقت ذکر پیدائش قیام، فاتحہ مروجہ، گیارہویں، رجبی شریف، عرس اور زیارت مزار بزرگان کے واسطے پھولواری شریف، اجمیرشریف، بہارشریف وغیرہ بھی جاتے ہیں، اذان میں اشہدان محمدرسول اللہ ا پر جب موذن پہنچتا ہے تو یہ انگوٹھوں کے ناخن کو چومتے اور آنکھوں سے لگاتے ہیں۔ قال في جوابه (١/٥٣٧):  پس حنفی مقلدوں کونمبر۲ ، ۳ دونوں جماعتوں سے الگ رہنا چاہئے، اور کسی کے ساتھ بھی نمازنہ پڑھیں، بلکہ اپنی جماعت الگ کریں، اور بدرجہ مجبوری جماعت نمبر۲ کے ساتھ نمازپڑھ لیا کریں کیونکہ وہ لوگ نماز، وضو، پاکی ناپاکی کے مسائل میں امام ابوحنیفہ کے مذہب پر عمل کرتے ہیں ، توحنفیوں کی نمازاپنے مذہب کے موافق صحیح ہوجائے گی۔

وقال المفتي عبد الرحيم اللاجفوري في فتاوى رحيميه (٤/١٧٨): یہ شخص فاسق ہے اس کوامام مقرر کرنا جائز نہیں  ۔ اگر پہلے سے امام ہو اور اس کو نکالنے میں  فتنہ کا ڈر ہو اور دوسری مسجد نہ ہو اگر ہو تو بہت دور ہونے کی وجہ سے پنج وقتہ حاضری دینا مشکل ہوتو مجبوراً اس امام کے پیچھے نماز پڑھے۔ تنہاپڑھنے سے ایسے امام کے پیچھے پڑھنا افضل ہے کہ جماعت کی بہت ہی اہمیت ہے ۔خرابی کی ذمہ داری امام پر اور اس کو مقرر کرنے والوں  پر رہے گی۔

وقال المفتي محمد تقي العثماني في فتاوى عثماني (١/٤٠٦):   نماز پڑھنے کے لئے ایسا امام منتخب کرنا چاہئے جو صحیح العقیدہ ہو، تاہم اگر بریلوی مسلک کے کسی امام کے پیچھے نماز بے خبری میں پڑھ لی گئی یا اس کے علاوہ کہیں اور جماعت ملنا ممکن نہ تھا اس حالت میں پڑھ لی گئی تو نماز ہو گئی۔

Allah knows best

Yusuf Shabbir

9 Ṣafar 1442 / 27 September 2020

Approved by: Mufti Shabbir Ahmed and Mufti Muhammad Tahir