Daily Durud recital on the loudspeaker before Maghrib Adhan

Daily Durud recital on the loudspeaker before Maghrib Adhan

Daily Durūd recital on the loudspeaker before Maghrib Adhān

Question

What is the Islamic position on the loud recital of the 40 Durūd on the Masjid loud speaker system every day before the Maghrib Adhan? This disturbs those engaged in individual Duʿās particularly on Mondays, Thursdays and Fridays and also disturbs the students and teachers of the Ḥifẓ classes. If someone attempts to stop this, what is the ruling on this? Can this practice be condoned as a Bidʿat Ḥasanah? Will doing this on a daily basis in the Masjid render it an innovation?

بسم الله الرحمن الرحیم

Answer

This practice should be avoided in the Masjid particularly if it is disturbing people and it is happening on a daily basis. Our elders do not agree with the concept of Bidʿat Ḥasanah, and those scholars who do would not condone disturbing others in this manner. Doing this on a daily basis and broadcasting it on the Masjid loudspeaker leads to Iltizām, because of which something is incorrectly regarded necessary or Sunnah. The jurists have cautioned against persistence on a permissible and even a Mustaḥab (recommended) act in a way that people regard it necessary or criticise those who do not do it. Sometimes some actions begin with good intentions but they lead to greater harms. Therefore, this practice should be stopped and people should be encouraged to engage in individual worship including Durūd on our beloved Prophet ﷺ whilst in the Masjid and at all times.

قال علي القاري في المرقاة (٢/٥٥٨) تبعا لابن حجر المكي في فتح الاله (٣/٢٢١): ما يفعله المؤذنون الآن عقب الأذان من الإعلان بالصلاة والسلام مرارا أصله سنة، والكيفية بدعة، لأن رفع الصوت في المسجد ولو بالذكر فيه كراهة، سيما في المسجد الحرام لتشويشه على الطائفين والمصلين والمعتكفين، انتهى. وقال ابن عابدين في رد المحتار (١/٦٦٠): وفي حاشية الحموي عن الإمام الشعراني: أجمع العلماء سلفا وخلفا على استحباب ذكر الجماعة في المساجد وغيرها إلا أن يشوش جهرهم على نائم أو مصل أو قارئ، إلخ، انتهى۔

وقال إسحاق بن منصور الكوسج في مسائل الإمام أحمد بن حنبل وإسحاق بن راهويه (٩/٤٨٧٩): قلت: يكره أن يجتمع القوم يدعون الله سبحانه وتعالى ويرفعون أيديهم؟ قال: ما أكرهه للإخوان إذا لم يجتمعوا على عمد، إلا أن يكثروا. قال إسحاق كما قال. وإنما معنى أن لا يكثروا: يقول: أن لا يتخذونها عادة حتى يعرفوا به، انتهى۔

وقال اللكنوي في سباحة الفكر في الجهر بالذكر (ص ٣٤): نعم، الجهر المفرط ممنوع شرعا، وكذا الجهر الغير المفرط إذا كان فيه إيذاء لأحد من نائم أو مصل، أو حصلت فيه شبهة رياء، أو لوحظت في خصوصيات غير مشروعة، أو التُزم كالتزام الملتزمات، فكم من مباح يصير بالالتزام من غير لزوم والتخصيص من غير مخصص مكروها، كما صرح به علي القاري في شرح المشكاة والحصكفي في الدر المختار وغيرهما، انتهى. ووافقه المفتي محمود حسن الجنجوهي في فتاوى محموديه (٥/٢٢٤) ولخص كلامه بقوله: الإصرار على المندوب يبلغه إلى حد الكراهة، انتهى. وقال اللكنوي (ص ٣٩): ومن قال إنه بدعة أراد به أن إيقاعه على وجه مخصوص والتزام ملتزم لم يعهد في الشرع. وقال (ص ٤٦): لو التزم جهر سورة أو نحوها في موضع معين التزاما لم يعهد في الشرع وخيف منه ظن العوام لزومه حتما كما هو في كثير من التخصيصات الفاشية، فحينئذ لا يخلو عن كراهة البتة، ولذا قال في مصاب الاحتساب: قراءة الفاتحة بالجماعة جهرا بعد الصلاة بدعة. ونظيره ما قالوا من أن سجدة الشكر بعد الوتر مكروهة، وإن كان سجدة الشكر في نفسها مباحة ومرغوبا إليها، ونظائره كثيرة، انتهى۔

وقال ابن الهمام في فتح القدير (١/٤٧٦) والحصكفي في الدر المختار (٢/٥٧): درء المفسدة مقدم على جلب المصلحة، انتهى. وقال الكشميري في فيض الباري (١/٣١٧): الإنسان أرغب في دفع المضرة من جلب المنفعة، انتهى. وقال ابن نجيم في الأشباه والنظائر (ص ٧٨) والطحطاوي في حاشية المراقي (ص ٤٩) واللفظ له: درء المفاسد مقدم على جلب المصالح غالبا، واعتناء الشرع بالمنهيات أشد من اعتنائه بالمأمورات، انتهى. ونحوه في التقرير والتحبير (٣/٢١)۔

وقال محمد يوسف البنوري في معارف السنن (٤/٤٣٠): أنكر المحققون من كون البدعة حسنة، وهي لا تكون عندهم إلا سيئة، وممن حققه الشيخ الحافظ أبو إسحاق الشاطبي في كتاب الاعتصام، وعلى ذلك مشايخنا علماء ديوبند، ومشايخ دهلي من الشاه ولي الله وأتباعه، انتهى. وقال ابن الماجشون: سمعت مالكا يقول: من ابتدع في الإسلام بدعة يراها حسنة زعم أن محمدا صلى الله عليه وسلم خان الرسالة، لأن الله يقول: اليوم أكملت لكم دينكم، فما لم يكن يومئذ دينا فلا يكون اليوم دينا، كذا في الاعتصام (١/٦٤)، وقد فصَّلت الكلام حول هذا الموضوع في كتابي: العقد الثمين في حب النبي الأمين صلى الله عليه وسلم (ص ٢٦٣)، وذكرت فيه أن البدعة الشرعية لا تكون إلا سيئة، كما حققها غير واحد من مشايخنا، مثل الإمام المجدد السرهندي واللكنوي ورشيد أحمد الجنجوهي والكشميري وشيخ الهند محمود حسن الديوبندي ومحمد شفيع العثماني ورشید أحمد اللدیانوي ومحمد يوسف اللديانوي وشيخنا محمد تقي العثماني وغيرهم، وراجع تنشيط الآذان من كتاب الأربعين في الأذان (ص ١٤٥)۔

وقال المفتي محمود حسن الجنجوهي في فتاوى محموديه (٥/٢٦٠): درودشریف سرًا وجہراً دونوں طرح درست وثواب باعث تر قیٔ درجات اورموجب قرب ہے ،جمعہ کے روز خصوصیت سے اس کی تاکید کی ہے ۔لیکن اجتماعی حیثیت سے جہراً پڑھنا حدیث وفقہ سے ثابت نہیں ہے ، حالانکہ صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  پانچوں وقت مسجدمیں جمع ہوتے تھے ، اوقات ِ نماز کے علاوہ بھی بکثرت حضروسفرمیں جمع ہونے کا موقع ملتا تھا، مگرکہیں ثابت نہیں کہ اجتماعاً جہراً پڑھنے کامعمول رہا ہو،انفرا داً بھی جہراً پڑھنے میں اس کا لحاظ ضروری ہے کہ کسی کو تشویش نہ ہو ، مثلاً وہاں کوئی نمازمیں مشغول نہ ہو یانائم نہ ہو۔ ثم قال بعد أسطر(٥/٢٦٢): اوقات خاصہ میں مقدار معینہ آیات واذکار کااگرکہیں معمول ہے، تووہ عمل مشائخ ہے، جو کہ حجت ِ شرعیہ نہیں ہے ، اس کااتباع لازم نہیں ہے، البتہ چونکہ وہ مشائخ بھی متبع شریعت ہیں، اسلئے انکے ایسے عمل کی توجیہ کی جائے گی ، تاکہ وہ خلاف شرع ہوکر بدعت کی حدود میں داخل نہ ہوجائے، توجیہ یہ ہے کہ کسی وقت یامقدار کی تعیین کی دوصورتیں ہیں، ایک صورت تویہ ہیکہ حضرت شارع علیہ السلام نے مثلاً اوقاتِ نماز کی تعیین فرمائی اوررکعات نماز کی مقدار متعین فرمادی،یہ تعیین تو امرتعبدی ہے جوبذریعہ وحی ہے، ایسی تعیین کرنے کاازخود کسی کوحق نہیں،بلکہ ایسی تعیین کیلئے امرشارع ہونا ضروری ہے، جو شخص ایسی (اعتقادی عملی) تعیین اپنی طرف سے کرے وہ قابل قبول نہیں بلکہ قابل رد ہے ’’من احدث فی امرنا ہذا مالیس منہ فہورد۔ متفق علیہ۔تعیین کی دوسری صورت یہ ہے کہ ایک طبیب یاڈاکٹر مریض کیلئے دوایاغذا کی معین مقدار وقت مخصوص میں تجویز کرتاہے، یہ امرتعبدی نہیں ہے، بلکہ معالج کے تجربہ پرہے، اگرکوئی شخص اسکااتباع نہ کرے تووہ عنداللہ گنہگار نہیں ہے، اسکی ہدایات پرعمل کریگا توانشاء اللہ صحت مند ہوکر نفع پائیگا، اسی قبیل سے ہے ذکر کی خاص مقدار خاص ہیئت وضرب کے ساتھ اسی وجہ سے تفاوتِ احوال کے تحت اسمیں تفاوت بھی ہوتا رہتا ہے ، بعض دفعہ اس جہر اورضرب کو بالکل ترک کردیا جاتاہے، مخصوص ختمات کا حال بھی ایسا ہی ہے۔  وقال (٥/٢٦٣): حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پرصلوٰۃ وسلام پڑھنا ہرمسلمان کی ذمہ داری ہے ، اوربڑی سعادت وخوش نصیبی ہے۱ورصلوٰۃ وسلام نہ پڑھنا بڑی محرومی اور بدنصیبی ہے ،سلف صالحین نے ہمیشہ صلوٰۃ وسلام کو اپنے معمولات میں رکھا ہے ، اوررکھتے ہیں ،مگراس کیلئے کوئی ایسی صورت ازخود تجویز کرنا جس کاثبوت شرعی دلائل سے نہ ہو اور اس سے دوسروں کی نماز میں خلل بھی ہوتاہو اورپھر اس کو ضروری سمجھ کر اس پراصرار کرنا تو بدعت اورممنوع ہے۔ وقال (٢٢/٣٩٤): لاؤد  اسپیکر پر صرف پانچ وقت کی اذان کہیں، جس سے مقصود لوگوں کو نماز کے لئے بلانا ہو ، بقیہ دوسری چیزوں کیلئے لاؤد اسپیکر استعمال نہ کریں، ہاں کوئی جلسہ کرنا ہو تو اس وقت حمد ونعت اور تقریر ووعظ کے لئے لاؤد اسپیکر استعمال کر لیں، پڑوسی کا خیال رکھنا بھی شرعا لازم ہے، بلا وجہ ایسا نہ کیا جائے جس سے اذیت پہنچے۔

وقال المفتي عبد الرحيم اللاجفوري في فتاوى رحيميه (٢/٢١٨): جس عبادت کے لئے اجتماع ثابت نہ ہو اگر اہتمام والتزام کے ساتھ اجتماعی طریقہ سے اس کو ادا کیا جائے گا تووہ مناسب طریقہ نہ ہوگا اور اس سے روکا جائے گا اور اسلاف عظام سے ا س کا بھی ثبوت ہے اس کے چند نمونے ملاحظہ ہوں۔ وقال (٤/٩٩): جس اقامت سے پہلے درود شریف سرّا  پڑھنے کی اجازت ہے ۔شامی میں  مستحب لکھا ہے ۔ البتہ جہراپڑھنے کا التزام مکروہ ہوگا۔ومن المکروھات الصلوۃ علی النبی ﷺفی ابتداء الا قامۃ لا نہ بد عۃ (طحطاوی علی مراقی الفلاح ، ص ۱۱۵ باب الاذان) ونص العلماء علی استحبابھا (ای استحباب الصلوٰۃ علی النبی ﷺ) فی مواضع یوم الجمعۃ ولیلتھا … الیٰ قولہ۔وعند الا قامۃ (شامی ص ۴۸۳ ج۱ ص ۴۸۴ )۔فقط و اﷲ  اعلم بالصواب۔

وقال المفتي محمد تقي العثماني في فتاوى عثماني (١/١١١):   درود شریف پڑھنا بے حد فضیلت کا عمل ہے، جس مسلمان کو اللہ تعالی جتنی توفیق دے، درود شریف پڑھ کر اپنے نامۂ اعمال کو نیکیوں سے بھرنا چاہئے، اس کا کوئی خاص وقت شریعت کی طرف سے مقرر نہیں ہے۔ انسان جس وقت چاہے اخلاص کے ساتھ نمود و نمائش کے بغیر درود شریف پڑھ سکتا ہے، لیکن ہمارے زمانے میں بعض مقامات پر اذان سے پہلے جس طرح اجتماعی ہیئت میں بلند آواز سے صلوۃ و سلام پڑھنے کا رواج ہو گیا ہے اور جس طرح اس کو فرض و واجب یا اذان کا لازمی جزء سمجھا جانے لگا ہے یہ درود شریف نہیں، بلکہ اس کی نمائش ہے جس کا کوئی ثبوت قرآن و سنت یا صحابہؓ و تابعینؒ کے عہد مبارک میں نہیں ملتا، اس بناء پر یہ بدعت ہے ۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ اس طریقے کے بجائے مسنون طریقے پر اخلاص و ادب کے ساتھ درود شریف پڑھنے کا طریقہ اختیار کریں۔

وسئل المفتي محمد تقي العثماني كما في فتاوى عثماني (١/١١٤): هل يجوز بكلام الله وسنة الرسول صلى الله عليه وسلم أن تؤدى الصلاة والسلام جهرا بعد صلاة الجمعة أمام المنصة والمحراب للجامع اهتماما والتزاما؟ فأجابه بجواب مفصل، قال فيه: فإذا بحثنا عن فعل الصحابة وأتباعهم في مسئلتنا هذه، رأينا أنهم كانوا يباشرون الصلاة على النبي صلى الله عله وسلم ويعتبرونه عملا مهما مثابا عليه، غير أن طريق مباشرتها عندهم غير الطريق المذكور في السؤال، إذ كانوا يصلون منفردين خاشعين، ولم يكونوا يؤدونها زرافات مجتمعين عند المناص والمحاريب، ولم يثبت في شيء من الروايات اجتماعهم لهذا المقصد وإعلامهم به كما يُعلمون الأذان، فظهر أن الصلاة على النبي صلى الله عليه وسلم حسن مثاب عليه، والطريق المذكور غير مستحسن، إذ لو كان حسنا لفعله الصحابة بوجه أحسن واهتمام بليغ، ثم في هذا الفعل مفاسد أخرى عديدة، وذكرها. منها أنه قال: غاية ما في الباب أنه مباح، وسفهاء زماننا يلتزمون التزاما ولا كالتزامهم الجماعة، ويهتمون به ويلومون على تاركيه، حتى أن بعضهم يزعمه فرضا، وقد تقرر في الفقه أن التزام ما لا يلزم لا يجوز، انتهى. وصوبه والده العلام المفتي محمد شفيع العثماني۔

Allah knows best

Yusuf Shabbir

15 Rabīʿ al-Awwal 1443 / 22 October 2021

Approved by: Mufti Shabbir Ahmed