Performing ʿUmrah Ṭawāf and then Qirān Ḥajj from Madīnah
Question
I travelled to Makkah al-Mukarramah at the beginning of Dhū al-Ḥijjah and performed ʿUmrah. Thereafter, I travelled to Madīnah Munawwarah and upon return performed Qirān (a second ʿUmrah and Hajj together). Is this valid?
بسم الله الرحمن الرحیم
Answer
If a person travels to Makkah Mukarramah during the months of Hajj and performs ʿUmrah and thereafter travels to Madīnah Munawwarah, he should not perform Qirān on his return, rather he should enter into the Iḥrām of Hajj only on his return. Overall, his Hajj will be Tamattuʿ necessitating a Dam Shukr, from which the person himself can also eat.
If, however, he performs Qirān, then there are two views. According to Imam Abū Ḥanīfah (d. 150/767), this will necessitate a penalty Dam which can only be consumed by the poor. The Hajj will be regarded as a Tamattuʿ and Dam Shukr will be also be necessary. However, according to Imam Abū Yūsuf (d. 182/798) and Imam Muḥammad (d. 189/805), the Qirān Hajj is valid, and therefore Dam Shukr will be necessary, no penalty Dam will be necessary. Mawlānā Ẓafar Aḥmad ʿUthmānī (d. 1394/1974) has mentioned that this view of Imam Abū Yūsuf and Imam Muḥammad can be acted upon.
Therefore, Qirān is to be avoided in such a scenario. However, if Qirān is performed then it will be valid according to Imam Abū Yūsuf and Imam Muḥammad, which can be acted upon, especially as most people are unaware of the ruling.
Note: If upon return from Madīnah Munawwarah in the scenario in question, a person makes intention for ʿUmrah only (as part of the intention for Tamattuʿ), he will perform ʿUmrah, exit the Iḥrām, and thereafter enter into the Iḥrām for Ḥajj, and there will be no penalty Dam. There will only be the Dam Shukr as mentioned above. A person may decide to do this if there is a significant gap between arrival into the city of Makkah and 8 Dhū al-Ḥijjah.
قال محمد حسن شاه في غنية الناسك (ص ٣٤٣): وكذا لو خرج إلى الآفاق لحاجة فقرن لا يكون قارنا عند أبي حنيفة وعليه رفض أحدهما ولا يبطل تمتعه، لأن الأصل عنده أن الخروج في أشهر الحج إلى غير أهله كالإقامة بمكة، فكأنه لم يخرج وقرن من مكة، وأما عندهما فكالرجوع إلى أهله، فإذا خرج بطل تمتعه، ثم إذا قرن من الميقات كان قارنا، انتهى۔
وجاء في لباب المناسك (ص ٤١٩) وغنية الناسك (ص ٣٧٣): كل من لزمه الرفض ولم يرفض فعليه دم الجمع، انتهى۔
وقال رحمة الله السندي في لباب المناسك وشارحه علي القاري (ص ٣٧٨): (لا قران لأهل مكة) أي حقيقة أو حكما. قال: (فمن قرن منهم كان مسيئا وعليه دم جبر، ويلزمه رفض العمرة، فإذا رفضها فعليه دم الرفض، وإن لم يرفض فدم الجمع)، انتهى۔
وقال الشيخ شير محمد السندي المدني في زبدة المناسك مع عمدة المناسك (٢/١٤): اکثر حاجی اشہر حج میں آکر عمرہ کرتے ہیں پھر اشہر حج میں حج کرنے سے پہلے مدینہ طیبہ، روضہ ٔمقدسہ اور حجرۂ معطرہ مطہرہ کی زیارت کے لئے چلے جاتے ہیں ، پس ان کو چاہئے کہ وہاں سے جب واپس ہوں تو فقط حج مفرد ہی کا احرام باندھ کر آئیں تو امام صاحب کے نزدیک ان کا تمتع صحیح ہے اس سفر کرنے سے تمتع باطل نہ ہوگا، کیونکہ وہ اشہر حج میں عمرہ کر چکے ہیں اور عمرہ کرنے کے بعد وہ حکماً مکیوں کے حکم میں داخل ہیں اگرچہ اشہر حج میں میقات سے بھی باہر نکل گئے ہوں کیونکہ وہ اپنی اصلی وطن نہیں گئے ہیں تو ان کا سفر باعتبار حکم کے واحد ہے ،اس کو المام فاسد کہتے ہیں جو کہ مبطل تمتع نہیں ، اب ان کو مدینہ طیبہ سے قران کا احرام باندھنا ممنوع ہے کہ وہ مکیوں کے حکم میں ہیں ، اگر قران کا احرام باندھیں گے تودم جنایت لازم ہوگا ، شرح اللباب وغنیہ ۔
وقال المفتي عبد الرحيم اللاجفوري في فتاوى رحيميه (٨/٩٥): سوال: ایک شخص حج تمتع کا احرام باندھ کر مکہ معظمہ پہنچا، اور عمرہ کے افعال ادا کر کے حلال ہوگیا اس کے بعد وہ متمتع مدینہ منورہ جائے تو شرعی اعتبار سے گنجائش ہے یا نہیں ؟ اور اگر مدینہ منورہ چلا گیا تو وہاں سے واپسی کے وقت کون سا احرام باندھ کر آئے؟ اور ایسے متمتع کے لئے پہلے مکہ معظمہ جانا افضل ہے یا مدینہ منورہ؟ اس بارے میں تفصیلی جواب مرحمت فرمائیں ۔بینوا توجروا۔الجواب: اگر حج فرض ہوتو ا س کے لئے بہتر یہ ہے کہ پہلے مکہ معظمہ جائے او ر حج کے بعد زیارت کے لئے مدینہ منورہ کا سفر کر ے اور اگر پہلے مکہ معظمہ چلا گیا اور عمرہ کے احرام سے فارغ ہوگیا تو اس کے لئے بہتر یہ ہے کہ مکہ مکرمہ ہی میں مقیم رہے تاکہ اس کا تمتع بالا تفاق صحیح ہوجائے اور اگر مدینہ منوره چلا گیا تو بھی اس سفرکی وجہ سے امام ابو حنیفہ ؒ کے نزدیک اس کاتمتع باطل نہ ہوگا(کہ وہ وطن اصلی نہیں گیا)اور جب مدینہ منورہ سے واپس لوٹے تو بہتر یہ ہے کہ حج افراد کا احرام باندھ کر آئے اور اگر عمرہ کا احرام باندھ کر آئے اور عمرہ کر کے حلال ہوجائے اورایام حج آنے پر حج کا احرام باندھ کر حج کرے تو بھی امام ابو حنیفہ ؒ کے نزدیک اس کا تمتع صحیح ہے اور تمتع کا انعقاد پہلے عمرہ سے ہوگا، اور صاحبینؒ کے نزدیک اس کا تمتع صحیح ہے اور تمتع کا انعقاد پہلے عمرہ سے ہوگا ،اور صاحبین ؒ کے نزدیک پہلا عمرہ مفرد ہوگیا اور ثانی عمرہ سے تمتع منعقد ہوگا، البتہ قران کا احرام باندھ کر آنا ممنوع ہے اس لئے کہ یہ حکماً مکی ہے ، اگر قران کا احرام باندھ کر آئے گا تو دم لازم ہوگا۔
وجاء في إمداد الأحكام للشيخ ظفر أحمد العثماني (٢/١٨٠): سوال :بخدمت جناب مولانا الحاج مولوی محمد ظفر احمد صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ اب ذیل مسئلہ کثرت الوقوع پیش ہے ان کو اچھی طرح واضح کرکے ارقام فرماویں تو درج کیا جاوے ۔ مسئلہ : آفاقی اپنے وطن سے اس سال کے حج کرنے کی غرض سے اشھرالحج میں نکلا اور وطن سے چلتے وقت یا میقات سے یہ قصد کیا کہ حد حرم سے باہرباہر مثلاً جدہ سے رابغ یا ینبوع سے ہوتے ہوئے پہلے مدینہ طیبہ کی زیارت سے مشرف ہوکر بعد میں آکر حج کریں گے اس لئے میقات سے احرام نہ باندھا پس جب حل میں پہنچا جیسے جدہ میں آیا تو وہاں سے مدینہ طیبہ کا راستہ بند ہوگیا اس لئے مکہ مکرمہ کوجانا پڑا۔ اب جدہ سے عمرہ کا احرام باندھ کر مکہ میں عمرہ بجا لایا گیاپھر مدینہ چلاگیا اب جومدینہ سے واپسی ہوگی تو یہ شخص ذوالحلیفہ سےقران کرسکتا ہے یا نہیں ، کیونکہ جب یہ جدہ یعنی حل سے اشھر حج میں عمرہ کا احرام باندھ کر آیا تو یہ حلی کے حکم میں ہے گویا اب یہ مکی ہے، اب اشھر حج میں باہر میقات سے گیا تو اب وہ قران نہیں کرسکتا ، اگر کرے گا تو دم اساء ت لازم آئے گا ، اور اگر وہاں سے فقط حج کرے تو متمتع بھی نہ ہوگا کیونکہ عمرہ اس کا آفاقی نہیں ہے، اور وہاں سے پھر تمتع کرے یعنی عمرہ کا احرام باندھے تو بھی منع ہے کیونکہ مکی کے حکم میں ہے، اس مسئلہ کو میں تو یہی سمجھا ہوں ۔ مناسک متوسط اور غنیۃ الناسک میں یہ قواعد ہیں۔ یہ مسئلہ تو غنیۃ الناسک میں تو صریح ہے جو حاجی آفاقی اشھرالحج میں آکر عمرہ بجا لاوے پھر مدینہ طیبہ کوگیا اور وہاں سے قران کرکے آوے تو دم اساء ت لازم ہے سابق صورت بھی ایسی ہی ہے ۔تحقیق سے جواب عنایت ہو، اکثر حاجی ایسا کرتے ہیں ۔
فأجابه الشيخ ظفر أحمد العثماني بذكر بعض العبارات ثم قال: ان عبارات سے معلوم ہوا کہ صورت مذکورہ میں صاحبین کے نزدیک جب یہ شخص مکہ سے مدینہ چلا گیا اور میقات سے تجاوز کر گیا اب یہ آفاقی ہوگیا اور واپسی میں اس کو قران اور تمتع دونوں جائز ہیں کیونکہ خروج الی الآفاق وتجاوز عن المیقات سے تمتع اول باطل ہوگیا ، اور امام صاحب کے نزدیک تمتع باطل نہیں ہوا اس لئے اس کو مدینہ سے واپسی میں قران اور تمتع نہ کرنا چاہئے، اور امام صاحب کے قول پر عمرۂ اولیٰ کی وجہ سے تمتع اس طرح صحیح ہو گیا کہ تمتع کے لئے عمرہ کا آفاقیہ ہونا شرط صحت نہیں بلکہ واجبات سے ہے، بدون عمرۂ آفاقیہ کے بھی تمتع ہو سکتا ہے گو دم اساء ت لازم آئے گا ، مگر میرے نزدیک صورت مسئولہ میں دم اساء ت بھی لازم نہیں کیونکہ آفاقی ہندی کا جدہ سے احرام باندھنا بھی احرام من المیقات ہی ہے، کیونکہ میقات اور اور محاذاۃ میقات کا جہاز میں ہم کو علم نہیں ہو سکتا سوائے قول کافر پر اعتماد کرنے کے اور وہ معتبر نہیں ، پس جہاز میں احرام باندھنا صرف افضل ہے واجب نہیں، بلکہ جدہ سے احرام واجب ہے اور وہی آفاقی ہندی کی اصل میقات ہے، پس عمرہ آفاقیہ ہوا اور دم اساء ت لازم نہ ہوا ، نہ قول امام میں اور نہ قول صاحبین میں، اور قول امام پر اسقاطِ دم ِاساء ت میں تکلف ہوتو قول صاحبین پر اس کا سقوط ظاہر ہے، اور جب ابتلاء عام ہے تو اس مسئلہ میں قول صاحبین پر فتویٰ دینا چاہئے ۔
وقال المفتي رشيد أحمد اللديانوي في أحسن الفتاوى (٤/٥٢٤): اگرشوال شروع ہونے کے بعد مکہ مکرمہ سے آفاق میں گیا تو عند الصاحبین رحمہما اللہ تعالی تمتع وقران کر سکتا ہے، عند الامام رحمہ اللہ تعالی یہ شخص بحکم مکی ہے، اس لئے تمتع وقران نہیں کرسکتا، اسی پر فتوی ہے، لہذا افراد کرے، البتہ نظم حکومت کے تحت مجبور ہو اور اطالۂ احرام مشکل ہو تو تمتع کی گنجائش ہے۔
Allah knows best
Yusuf Shabbir
9 Dhū al-Ḥijjah 1444 / 27 June 2023
Approved by: Mufti Shabbir Ahmed and Mufti Muhammad Tahir
Note: The following sentence (اور صاحبینؒ کے نزدیک اس کا تمتع صحیح ہے اور تمتع کا انعقاد پہلے عمرہ سے ہوگا) appears to be an error in the published version of Fatāwā Raḥīmiyyah. This is also how it appears in the earlier print of Fatāwā Raḥīmiyyah. This sentence should be deleted altogether.